ادھوری محبت
نظر جو اٹھائی تو سیدھا تیر ہی چلایا ہے
بڑے شوق سے ہم نے بھی زخم یہ کھایا ہے
بمشکل ہی تو پہنچا تھا تیری چوکھٹ تک
دکھا کر جام تم نے مجھے بس پھسایا ہے
یوں پوچھتے ہیں گھر والے مرے مجھ سے
بتاؤ تو ذرا تم پر یہ کس آسیب کا سایہ ہے
کہاں غائب رہتے ہو؟ کوئی نیا ٹھکانہ ہے؟
وہ کون ہے ؟تمہیں جس نے یوں اپنا بنایا ہے
اس نازنین سے کبھی ہمیں بھی ملاؤ نا
جس نے چپکے سے تمہیں ہم سے چرایا ہے
کیا تھا وعدہ کہ اک دن ان کو میں بتاؤں گا
رشتہ دیکھنے جو انہوں نے مجھے آج بلایا ہے
کیا ان کو بتاؤں اب، ہے میخانہ مرا مسکن
تھوڑا سا ہنسا کر مجھے کتنا اس نے رلایا ہے
تمہارے لیئے ساتھ چلنا جو تھا ناممکن
تو کیوں ہر قدم پہ مجھے تم نے آزمایا ہے
ہاتھ تم سے ملایا تھا محبت میں عمراؔن
یہ شاہرگ پر کیوں خنجر تمہی نے چلایا ہے
Post a Comment