اک افسانہ
تم نے بھی کسی کو اپنا بنایا تو ہو گا
تمہارا بھی دل کسی نے چرایا تو ہو گا
کی ہوں گی میٹھی باتیں بھی اس سے
پھر اس کو اپنے گلے سے لگایا تو ہوگا
قصہ زندگی کا سنایا ہو گا اس کو تم نے
پھر افسانہ اک اسی سے چھپایا تو ہو گا
محبت کے غرور میں تھے تم آسماں پہ
اسی کی نفرت نے زمیں پہ گرایا تو ہو گا
کرتا ہو گا جھوٹا وعدہ تم سے ملنے کا
یوں اس نے بھی تمہیں رلایا تو ہو گا
نکالا ہے جیسے تم نے اپنے دل سے ہمیں
یوں اس نے بھی تمہیں بھلایا تو ہو گا
جاگتے رہتے ہیں تیری یاد میں شب بھر
اس نے بھی تمہیں رتجگے سے ملایا تو ہوگا
سب یہ دنیا والے کہتے ہیں شرابی ہم کو
انگور غم تم نے بھی کبھی کھایا تو ہو گا
ہاتھ ملا کر غیر سےجلاتے تھے مجھے تم
یوں اس نے بھی کھبی تمہیں جلایا تو ہوگا
کیسے آتا ہے بہاروں میں خزاں کا موسم
یہ سب اس نے تمہیں عملا بتایا تو ہو گا
جیسے منتوں سے مناتے تھے تمہیں ہم
حساب سارا تم نے بھی چکایا تو ہوگا
ترک تعلق کا جب اعلان کیا ہو گا اس نے
رو رو کے پھر تم نے اسے منایا تو ہو گا
ہوئی ہوگی جب غم سے تیری چشم نم
خیال تم کو اس وقت ہمارا آیا تو ہو گا
اتنی محبت ہے جو غم کو تم سے عمراؔن
تم نے بھی دل کسی کا دکھایا تو ہو گا
Post a Comment