غزل
رو لیئے ہیں بہت اب ہنسایا جائے
نئے جال میں خود کو پھنسایا جائے
آئینے میں اس کا چہرہ نظر آنے پر
کیوں خود سے ہی دھوکا کھایا جائے
جنہیں یاد کر کے روح کو سکون ملے
ایسی یادوں کو کیونکر بھلایا جائے
وہ نہیں آئیں گے یہ بات تو طے ہے
اب کس طور سے جی کو بہلایا جائے
آنکھوں کی ضد ہے کریں نظارہ ان کا
اب انہیں کس کا دیدار کرایا جائے
یہ چاند تارے یاد دلاتے ہیں اس کی
پہلے چاند ہی کا گلا دبایا جائے
محبوب کے بچھڑنے کا غم کیا ہے
تاروں کو بھی سبق سکھایا جائے
پوری دنیا کو بنا کے دشمن اپنا
خود پہ ہی ستم یہ ڈھایا جائے
پھر یاد کر کر کے ان کو عمراؔن!
خوب بچھڑنے کا غم منایا جائے
~ ~ ~
Post a Comment